اسلام
میں انسانی زند گی سے متعلق تمام احکامات بیان کیے
گئے ہیں، زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں کہ جس کے
متعلق قر آن وحدیث اور فقہِ اسلامی میں رہنمائی موجود نہ
ہو، مرد کا اپنے محارم کے جسم کے کس حصے کی طرف نگاہ کرنا جائز ہے اور کس
حصے کی طر ف دیکھنا ناجائز ہے؟اس سلسلے میں علمائے کرام سے
مختلف اقوال منقول ہیں۔
مالکیہ کا مسلک
علمائے مالکیہ کے نزدیک مرد
کے لیے اپنے محارم کے بازو ، سر کے بال ،سینے کے ا وپر حصہ اور گردن
کا نچلا حصہ اور پاؤ ں کے اطراف کی طرف نگاہ کرنا جائز ہے۔ (مواھب
الجلیل لشرح مختصرالخلیل:۲ /۱۸۲)
محرم عورت کے پستان ،سینہ اور
رانوں کی طرف نگا ہ کر نا جائز نہیں۔(الشرح الکبیر مع حاشیہ
الدسوقی:۱ / ۳۴۶،مواھب الجلیل:۲/۱۸۳)
مرد کا مرد کے جن اعضاء کو دیکھنا
جائز ہے عورت اپنے محرم مرد کے ان اعضاء کو دیکھسکتی ہے، یعنی
عورت کے لیے محرم مرد کی ناف سے لے کر گھٹنوں تک کے علاوہ با قی
بدن کی طرف نگاہ کرنا جائز ہے۔
مالکیہ کے یہاں اگر چہ شہوت
کا خوف نہ ہو تو پھر بھی مرد کا جوان محرم عورت کی طرف نگاہ بھر کر
بار بادیکھنا جائز نہیں؛البتہ ضرورت کے وقت (جیسے عدالت میں
گواہی کے وقت جوان محرم عورت کی طرف دیکھنے کی گنجائش ہے
)۔ ( مواھب الجلیل :۲ /۱۸۳)
شوافع کا مسلک
فقہائے شوافع کے یہاں اگر فتنے کا
خوف نہ ہو تو ناف سے لے کر گھٹنوں تک کے علاوہ باقی بدن کی طرف نگاہ
کرنا جائز ہے (کفایة الاخیار،ص:۴۶۹،۴۷۰، المجموع شرح المہذب :۱۷ /۲۱۵ ، ۲۱۶)
ایک دوسرے قول میں شوافع کے نزدیک
محارم کے ان اعضاء کی طرف نگاہ کرنا جائز ہے جو گھر میں کام کرتے ہوئے
عام طور سے ظاہر ہوتے ہیں ،جیسے سر، گردن، چہرہ اور پنڈلیاں وغیرہ،
ان کے علاوہ کی طرف دیکھنے کی اجازت نہیں۔(حوالہ
سابق)
حنابلہ کا مسلک
علمائے حنابلہ کے یہاں مرد کا
اپنے محارم کے ان اعضاء کی نگاہ کرنا جائز ہے جو عمو ماً ظاہر ہوتے ہیں۔(المغنی
لابن قدامہ:۷ /۷۵)
ابوالحسن مرداوی نے اسے اکثر حنابلہ کا مذہب قرار دیا
ہے؛ البتہ فتنے سے بچنے کے لیے پنڈلیوں اور سینہ کی طرف
نگاہ کر نا درست نہیں۔
عورت کا محرم مرد کی طرف نگاہ کرنے کے بارے
میں حنابلہ کے دو قول ہیں :
(۱) مرد کی شرمگاہ کے علاوہ کی طرف نگاہ کرنا جائز ہے ۔
(۲) مرد کا مرد کے جن اعضاء کی طرف نگاہ کرنا جائز ہے، عورت
بھی اپنے محرم مرد کے ان اعضاء کی طرف نگاہ کرسکتی ہے ۔(المغنی
:۷
/۸۰)
حنفیہ کا
مسلک
علمائے احنافکے نزدیک اگر طر فین
کی طرف سے شہوت کا خوف نہ ہوتو مردمحرم عورت کے سر کے بال ، کان، چہرہ
،بازو، پنڈلیاں،اور پاؤں وغیرہ کی طرف نگاہ کر سکتا ہے (بدائع
الصنائع: ۶
/۴۸۹،البحر
الرائق:۸
/۳۵۵،
حاشیہ ابن عابدین ۵ /۲۵۹)
حنفیہ کا
استدلال
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں
محارم کے لیے” زینت “ کے اظہار کی اجازت دی ہے، چنانچہ
سورہٴ نور،آیت : ۳۱ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ِ گرامی ہے:﴿وَلاَ یُبْدِیْنَ
زِیْنَتَھُنَّ الَّا لِبُعُوْلَتِھِنَّ أوْ آبَائِھِنَّ أوْ آبَاءِ
بُعُوْلَتِھِنَّ أوْ أبْنَائِھِنَّ أوْ أبْنَاءِ بُعُوْلَتِھِنَّ أوْ اخْوَانِھِنَّ
أوْ بَنِيْ اخْوَانِھِنَّ أوْ بَنِيْ أخَوَاتِھِنَّ أوْ نِسَائِھِنَّ أوْ مَا
مَلَکَتْ أیْمَانُھُنَّ﴾
ترجمہ: ”اور نہ کھو لیں اپنا سنگھار؛ مگر
اپنے خاوند کے آگے ،یا اپنے باپ کے آگے، یا اپنے خاوند کے باپ کے، یا
اپنے بیٹے، یا اپنے خاوند کے بیٹے کے ،یا اپنے بھائی
کے ،یا اپنے بھتیجوں کے، یا اپنے بھانجو ں کے، یا اپنی
عورتوں یا اپنے ہاتھ کے ما ل کے آگے“ (یعنی غلام اور باندی)۔
آیتِ کریمہ میں زینت
سے صرف نفسِ زینت مراد نہیں؛اس لیے کہ نفسِ زینت کا اظہار
منع نہیں؛ بلکہ مواضعِ زینت مراد ہیں ؛کیوں کہ آیت
میں اللہ تعالیٰ نے اصل زینت کی طرف نگاہ کرنے کو
مباح قرار دیا ہے ، لہٰذا مرد کا محرم عورت کے مواضعِ زینت کی
طرف نگاہ کرنا جائز ہے ، اعضاء بدن میں سر موضع ِتاج ہے ، بال چوٹیوں
کی جگہ ہے ،چہرہ موضعِ کحل(سرمہ) ہے ،گردن اور سینہ ہار کی جگہ
ہیں،کان بالیاں پہنے کی جگہ ہے ، بازو میں بازو بند اور
کنگن پہنے جاتے ہیں اور پاؤں خضاب اور پازیب کی جگہ ہیں۔(بدائع
الصنائع:۶
/۴۸۹،البحر
الرائق:۸
/۳۵۵ ،
حاشیہ ابن عابدین :۵ /۲۵۹)
عقلی دلیل
محارم کے ساتھ سفر وحضر میں
اختلاط اور ملنا جلنا زیادہ ہوتا ہے اور عام طور سے محارم کے لیے
مواضعِ زینت چھپانا اور اظہار وکشف سے بچانا مشکل اور باعثِ حرج ہوتا ہے؛ اس
لیے حرج سے بچانے کے لیے ان کی طرف نگاہ کو جائز قرار دیا
گیا ہے ۔(حوالہ سابق)
مزید یہ
کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کوعمومی طور سے غضِ بصرکا حکم دیا
ہے اور مواضعِ زینت کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا ہے توپیٹ،کمر،
شرم گاہ ا ور ران وغیر ہ مو اضع زینت نہ ہونے کی وجہ سے غض بصر
کے عمومی حکم میں داخل ہوں گے اور ان کی طرف نگاہ کرنا جائز نہ
ہوگا؛البتہ ہر وہ عضوجس کی طرف دیکھنا محارم کے لیے جائز ہے،
اگر شہوت کا خوف نہ تو اس کا چھونا بھی جائز ہے۔ (بدائع۶/۴۸۹، البحرالرائق:۳۵۵۸،۳۵۶)
حضرات علماء
کرام اور مجتہدینِ عظام نے قرآن مجید کی آیات کے علاوہ
متعدد احادیث سے محارم کی طرف نظر کرنے اور نہ کرنے کے مسائل کا
استنباط فرمایا ہے ، ان احادیث میں سے ایک بخاری شریف”کتاب
الغسل، باب الغسل بالصاع ونحوہ“ کی روایت بھی ہے، جس میں
حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اور حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا کے رضاعی بھائی ان کی خد مت میں گئے، ان کے
بھائی نے ان سے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کے غسل کے بارے میں پوچھا ،تو حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہانے” صاع“ جیسا ایک برتن پانی کا منگوایا ، پھر
غسل کیااور اپنے سر پر پانی بہایا ،اس وقت ہمارے اور ان کے درمیان
ایک پردہ حائل تھا ۔
حضرت عائشہ اور امام بخاری پر ایک بے جا اعتراض
بعض ایمان
سے عاری لوگ (روافض)امام بخاری کی اس ر وایت کی آڑ میں
ام الموٴمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاپر بے جا اعتراض کرنے کی
ناکام کوشش کرتے ہیں کہ امام بخاری نے اس حدیث میں ان کی
طرف یہ منسوب کیا ہے کہ انہوں نے ان لو گو ں کو غسل کر کے دکھا یا
ہے ، یہ العیاذباللہ بے حیا ئی کی بات ہے ؛کیوں
کہ ان لوگوں کو عملاً دکھانا تھا تو پردہ لگانے کی کیا ضرورت تھی؟اور
اگر نظر آرہا تھا تو گویا معترض کا مدعا ثابت ہو جائے گا کہ ایسا کرنا
بے حیائی کے زمرے میں آتا ہے ؟ایمان کی حقیقت
سے محروم یہ بے بصیرت لوگ مطاعن صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین
کے لیے احادیث سے اپنا من پسند مفہوم کشید کر نے کے لیے
نہایت ہی اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں
کرتے ،چاہے ان کے اعتراض کرنے کی کوئی بنیاد نہ ہو ۔
قارئینِ محترم! آپ نے گزشتہ سطور
میں محارم کی طرف نظر کرنے کے حوالے سے ائمہٴ اربعہ کے اقوال
اور قرآنِ پاک سے اس کی دلیل بھی یقینا پڑھ لی
ہوگی، اس کے بعد اس طرح کے بے جا اور بے بنیاد اعتراضات کی کوئی
حیثیت باقی نہیں رہتی؛اس لیے کہ راویِ
حدیث حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ او ر حضرتِ عائشہ رضی اللہ
عنہاکے رضاعی بھائی دونوں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے محارم میں
سے تھے؛ لیکن اس سے صرفِ نظر کر لیا جائے تو بھی اس اعتراض کے
جواب سے پہلے بہ طور تمہید حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا علمی
مقام اور مرتبہ اور حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم ا ور تابعین کا مسائلِ
شریعت کے جاننے اور معلوم کرنے کے لیے ان سے رجوع کرنے کو بیان
کرنا مفید ہوگا؛ تاکہ جواب سے پہلے پورا پس منظر ہمارے سامنے آجائے ۔
حضرت عائشہ کا علمی مقام اورصحابہ و تابعین
کا ان کی طرف رجوع
ام الموٴمنین حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا سے بڑھ کر کوئی قرآن مجید ،میراث اور حلال اور حر ام
کے مسائل میں ماہر نہ تھا ؛چناں چہ عروة ابن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں دیکھا جو
قرآنِ پاک ، فرائض، حلال و حرام ، شعر ،عرب کے واقعا ت اور انساب میں ان سے
ماہر ہو۔ (حلیة الاولیاء:۲/ ۴۹،۵۰)
علامہ ابنِ کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا نہ صرف ازواجِ مطہرات؛ بلکہ تمام عورتوں سے زیاد ہ دین کا
علم رکھتی تھیں ، امام زہری کہتے ہیں کہ اگر تمام ازواجِ
مطہرات اور تمام عورتوں کا علم ایک طرف ہو اور دوسری طرف حضرت عائشہ
رضی اللہ عنہا کا علم ہو تو وہ افضل ہے اور ان سب سے بڑ ھ کر ہے ۔ (
البدایة والنھایة:۸ /۹۷)
حضرت ابوموسیٰ اشعری
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے
صحابہ کو حدیث کے متعلق جب بھی کوئی
ا شکال پیش آتا توحضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے پوچھنے پر اس کا حل ضرور
نکل آتا۔ (البدایةوالنھایة: ۸ /۹۷)
اعتراض کے جوابات
اس پس منظر میں حدیث ِ باب
کے راوی حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ
عنہ کے بھائی نے ام الموٴمنین سے حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کے بارے میں سوال کیا
تو انہوں نے اس کی وضاحت فرمادی ۔اس روایت میں نہ
تو امام بخا ری
نے ام الموٴمنین
کی طرف کوئی غلط بات منسوب کی ہے اور نہ ہی حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا کے عمل سے کوئی ایسا شائبہ معلو م ہوتا ہے ۔
امام بخاری نے یہ روایت اس بات کی
وضا حت کرنے کے لیے روایت کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ
وسلم صاع جیسے ایک برتن سے غسل فرمایا کرتے تھے اور اس بارے میں
پانی کی کوئی خاص تحدید نہیں، جیسا کہ امام
بخاری کے ترجمةالباب ”باب الغسل بالصاع نحوہ“ سیبا لکل واضح اور ظاہر ہے ۔شُرّاحِ حدیث نے
اس طرح کے ممکنہ مزعومہ اعتراض کا دو طرح سے جواب دیا ہے ۔
قاضی عیاض
اور امام قرطبی کا جواب
پہلا جواب قاضی عیاض اور امام قرطبی نے دیا ہے، جسے شراحِ حدیث
نے عام طور سے نقل فرمایا کہ حدیث کے راوی حضرت ابو سلمہ رضی
اللہ عنہ ا ور سائل حضرت عائشہ
کے محارم میں سے تھے، جن کے لیے سر اور اوپر کے حصہ جسم کی طرف
نظر کرنا جائز تھا ،حدیث کا ظاہر یہی ہے کہ ان حضرات نے حضرت
عائشہ کے غسل کے عمل کو دیکھا یعنی
سر دھونے اور جسم کے اوپر کے حصے (گردن اور کندھوں )پر پانی بہانے کا مشاہدہ
کیا؛کیوں کہ اگر وہ اس کا مشاہدہ نہ کرتے تو پھر حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا کا پانی طلب کرکے ا ن کی موجود گی میں غسل
وطہارت حاصل کرنے کا کوئی معنی نہیں ہوتا اور اگر حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا مکمل اوٹ میں یہ عمل کرتیں تو زبانی بتانے اور
اس میں کوئی فرق باقی نہ رہتا ،لہٰذا حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہانے یہ عمل پردے کے اوٹ میں رہ کر کیا، اس حال میں
جسم کا وہ حصہ (یعنی سر اور کندھوں)کے علاوہ جن کی طرف محرم کو
نگاہ کرنا جائز نہیں ہے، وہ مستور تھا۔ (التوضیح لابن ملقن :۴/۵۵۵،شرح الکرمانی :۳/ ۱۱۵، فتح الباری ۲/۴۸۱، عمدة القاری ۳ /۲۹۲،المنھاج:۴ /۲۲۹،فتح الباری لابن ر جب الحنبلی:۱ /۱۴۴)
علامہ عینی نے فرمایا کہ حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہاکے اس عمل سے ثابت ہوا کہ عملی تعلیم و تعلم مستحب ہے ؛ اس لیے
یہ زبانی تعلیم سے زیادہ واضح اور موثر ہوتی ہے۔(عمدةالقاری۳ /۲۹۴)
علامہ کورانی کا جواب
علامہ احمد بن ا سماعیل بن عثمان
بن محمد کورانی
فرماتے ہیں کہ قاضی عیاض وغیرہ کا جواب میرے نزدیک
محلِ نظر ہے؛ اس لیے کہ جسمِ محارم کے اوپر کے حصہ کی طرف دیکھنا
اگر چہ جائز ہے؛ لیکن اسے عام لوگ بھی دیکھنا پسند نہیں
کرتے چہ جائے کہ اس کی نسبت مجسم ِحیا حضرت عائشہ رضی اللہ
عنہاکی طرف کی جائے ،باقی ر ہی بات برتن کی تووہ؛
اس لیے طلب کیا؛ تا کہ ا ن حضرات کوحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کے پانی
کی مقدار دکھائے ،انہوں نے اس لیے باقاعدہ غسل نہیں کیا،
ہوسکتا ہے ان کا پہلے سے غسل کا ارادہ ہو اور اتفاقی طور سے یہ دونوں حضرات
بھی آگئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کے بارے میں
پوچھا ، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت عائشہ نے اگر چہ پردہ میں رہ کرغسل فرمایا؛لیکن
یہ زبانی تعلیم دینے سے زیادہ ابلغ تھا ۔(دیکھیے
:الکوثر الجاری :۱ /۴۰۹ ، ۴۱۰)
مزید جوابات
(۱)شراحِ حدیث کے ان جوابات سے ہٹ کر ایک جواب یہ
بھی دیا جاسکتا ہے کہ حدیث کے راوی نے جو تعبیر اختیار
کی ہے، وہ عرف اور عام محاورے کی بنیاد پر ہے، اس سے یہ
لازم نہیں آ تا ہے کہ انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکے غسل کے عمل
کا مشاہدہ بھی کیا ہو؛کیوں کہ عرف میں جب کسی سے اس
طرح کا کوئی سوال کیا جاتا ہے کہ کتنی مقدار پانی سے غسل
کیا جاسکتا ہے ؟یا فلاں کتنے مقدار پانی سے غسل کرتے تھے ؟تو اس
کے جواب میں اگر وہ کسی مخصوص برتن میں پانی منگوا کر
پردے اور حجاب میں رہ کر اتنے پانی سے عملاًغسل کر کے آئے اور بتائے
کہ اتنی مقدار پانی سے غسل کیا تھا ، تو اس سے یہ لازم تو
نہیں آتا کہ پوچھنے والوں نے اسے دیکھا ہو ،اسی طرح یہاں
بھی ہوا ہے، مزید برآں جب راوی خودیہ کہہ رہا ہے کہ” ان
کے اور ہمارے درمیان پردہ اور حجاب تھا“تو پھر اپنی طرف سے اعتراض کشید
کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟یہ سوائے ان نفوسِ قدسیہ سے عداوت
کے اظہار کے اور کچھ نہیں۔
(۲)اس کے علاوہ اگران حضرات کی حضرت عائشہ رضی اللہ
عنہا پر کوئی نگاہ پڑی بھی ہے تو اس میں شرعی نقطئہ
نظر سے کوئی حرج بھی نہیں؛ اس لیے کہ یہ دونو ں ان
کے محارم میں سے تھے اور ان کے لیے جسم کے اوپر کے حصے کی طرف
نگاہ کرنا جائز تھا۔پھر شراح حدیث میں سے علامہ ابن رجب حنبلی
اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ حضرت ابوسلمہ رضی
اللہ عنہ اس وقت نابالغ اور چھوٹے بچے تھے ۔ (فتح الباری لابن رجب
الحنبلی:۱ /۱۴۴، الکنز المتوای:۳ / ۱۹۱)
(۳)یہ بات بھی معاشرے میں عام طور سے رائج ہے کہ
خاندان کے بڑے ا پنے چھوٹو ں کو بہت ساری باتوں کی عملی تعلیم
دیتے ہیں،اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے اپنے محارم میں
سے ایک بچے کو پردہ میں رہ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے
غسل کی تعلیم دی ہے تو اس میں کیا حرج ہے اور اگر
ان کی نگاہ بھی پڑی ہو تو صرف جسم کے اس حصہ پرجس کا محارم کے لیے
دیکھنا شرعاًجائز بھی ہے، جیسے سر اور کندھے وغیرہ۔
(۴)حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نے بھی ”کالرّاس“ کہہ کر اس بات کی
طرف اشارہ کیا ہے کہ انہوں نے صرف سر کو دیکھا ہے ۔(الکنز
المتواری:۳ /۱۹۳)
(۵)ا س کے علاوہ یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ اس
زمانے میں آج کی طرح مکمل بند غسل خانے نہیں ہوا کرتے تھے اور
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عام ہدایت بھی یہ
تھی کہ دوران ِغسل ستر کو چھپایا جائے ،تو کیا یہ ممکن ہے
کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی
تعلیمات کے خلاف عمل کیا ہو؟ ایسا سوچا بھی نہیں جا
سکتا ہے؛ پھر یہ ضروری تو نہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ
عنہانے لباس کے بغیر غسل کیا ہو ، کسی ایک بھی صحیح
روایت میں نہ تو اس کی صراحت ہے اور نہ ہی کنایتاً
اس بات کا اشارہ ملتا ہے ، اقرب یہ ہے کہ ان کا یہ غسل لباس پہننے کی
حالت میں تھا ،لہٰذا ایک شرعی مسئلہ کی تعلیم
کے لیے کپڑے پہنے ہوئے ہونے کے باوجود پردے اور حجاب کے اوٹ میں
ہوجانا ، ان پر اعتراض کے بجائے ان کی حیا اور احتیاط پر دلالت
کرتا ہے، اگر واقعہ حال میں معترض کے زعم باطل کے مطابق کوئی بات
قابلِ اعتراض ہوئی بھی ہو اور اسے تسلیم بھی کر لیا
جائے تو وہ شرعاً اور عرفاًکوئی قابلِ ا عتراض بات نہیں ، اور اگر ایسا
ہوتا توعقل اس بات کو تسلیم نہیں کرتی ہے کہ خیرالقرون میں
موجود صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اور خود راوی اور سائل اس پر
کوئی نکیر نہ کرتے اور خاموشی اختیار کرتے ، حاشا وکلا
!اس کو چھوڑیے اگر اس روایت پر ایسا کوئی ا عتراض ہوتا
توامت کے اساطین اہلِ علم میں سے کوئی ایک فرد ضروراس کی
طرف توجہ کرتا ا ور اس کا قابلِ اعتراض ہونا بیان کرتا؛ لیکن آج تک کسی
نے بھی اس روایت اور اس کے الفاظ کو قابلِ اعتراض نہیں سمجھا،
تو اس کا مطلب واضح ہے کہ معترض صرف ا ورصرف اپنے دل میں موجود بغض اور کینہ
کا اظہار کر نے کے سوا اور کچھ نہیں کر رہا ہے ۔
بنا بریں ایک نیک طینت
اور سلیم الفطرت آدمی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی پاک دامنی اور حیا کو بیان
کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے سورئہ نور میں
متعدد آیات نازل فرمائی ہیں اور زبانِ نبوت نے ان کی تعریف
و توصیف بیان کی ہے ، ہاں کوئی کج فطرت اور ایمان کی
حقیقت سے محروم ہو تو اس کے لیے نہ تو اللہ کا کلام کافی ہوسکتا
ہے اور نہ ہی ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم مفید
ثابت ہوسکتے ہیں ۔
***
-----------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 9 - 10
، جلد: 97 ، ذیقعدہ – ذی الحجہ 1434 ہجری مطابق ستمبر –
اکتوبر 2013ء